ریاست اور سیاست کا شعور (حصہ اول)

ریاست اور سیاست کا شعور (حصہ اول)

محترم قارییٔن آپ نے مختلف ادوار میں سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں اور شخصیات سے یہ دعوے  ضرور سنے ہونگے کہ ہم نے عوام کو شعور دیا ہے ۔ کسی نے کہا کہ ہم نے عوام کے پسے ہوئے غریب طبقے کو سیاسی شعور دیا اور ان کو ووٹ کی طاقت کا احساس دلایا  اور عوام کو طاقت کا سر چشمہ قرار دیا۔کسی نے کہا کہ سول بالا دستی کیلئے ووٹ کو عزت دینے کا شعور دیا ہے ۔اور کسی  لیڈرنےصرف یہ کہا کہ میں نے عوام کو شعور دیا ہے اور جب ہم ان “باشعور” عوام اور خصوصاً نوجوانوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو  کیا  شعور دیا ہے  تو اکثر لوگ آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں ۔ ہر کسی کا اپنا جواب اور شعور کی اپنی اپنی تشریح سننے کو ملتی ہے مطلب یہ کہ بڑی بڑی سیاسی شخصیات بھی اپنی بڑی بڑی سیاسی تحریکوں کے باوجود بھی عوام کو یہ سمجھا نے سے قاصر رہیں کہ شعور اصل میں ہے کیا اور عوام کو اس کا فائدہ کیا ہے ۔ اس بات کو مد نظر رکھ کر میں اپنی سمجھ کے مطابق سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ عوام کو کیا شعور ہونا ضروری ہے جس سے ملکی نظام بہتر ہو سکتا ہے اور عوام کو اس کے مثبت ثمرات مل سکتے ہیں۔ اس نقطے کو سمجھانے  کیلئے میں   سادہ اور عام فہم زبان میں یہ وضاحت کرونگا کہ ریاست کیا ہوتی ہے،  اور سیاست کیا  ہوتی   ہے۔ اور اس میں عوام کا کردار کیا ہوتا ہے یا  کیا ہونا چاہیٔے۔

خواتین و حضرات پہلے ہم ریاست پر بات کرتے ہیں۔ ریاست کوسمجھنے کیلئےہمیں انسان کی نفسیات  اور  ضرویات اور تاریخ انسانی کے آغازسے اب تک کے سفر کا  بالکل مختصرسا  جائزہ لینا پڑے گا۔ انسان بنیادی طور پر جسمانی اور روحانی طاقت  بلکہ زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کی جبلت  رکھنے والی مخلوق ہے۔ ہر ذی روح مخلوق کی طرح انسان کو بھی جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے یعنی زندہ  رہنے کیلئے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اور جسمانی طاقت بڑھانے کیلئے وافر اور اچھی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور اس خوراک کے ذرائع کو محفوظ اور مستقل برقرار رکھنے کیلئے انسان دوسری مخلوقات اور خصوصاً دوسرے انسانوں پر اپنا رعب ، دبدبہ اور غلبہ  برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ شروع شروع میں انسان نے اپنی ذات، اپنی اولاد اور پھر اپنے قبیلے کی خوراک  اور تحفظ کو یقینی بنانے  کیلئے اپنے ارد گرد خوراک پیدا کرنے والی زمینوں ، پانی اور جانوروں پر اپنا قبضہ جمایا اور اس قبضے کو برقرار رکھنے کیلئے اور اس میں توسیع کرنے کیلئے دوسرے قبیلوں اور گروہوں سے لڑائیاں بھی لڑیں  اور لڑائی جیتنے والوں نے علاقے میں توسیع بھی کی اورمخالفین کو مغلوب بھی کیا۔ یہ سلسلہ پھیلتے پھیلتے مختلف علاقوں میں مختلف قبیلوں کی نسلوں پر مشتمل قوموں کی لشکر کشی اور اس لشکر کشی کے نتیجے میں قائم ہونے والی بادشاہتوں کی شکل میں سامنےآیا۔جسمانی اور عقلی طور پر یہ طاقتور لیڈر اپنے قبیلے اوراپنی نسل کے باقی لوگوں کی سپورٹ سے بادشاہ بن جاتے تھے اور فتح کئے گئے علاقے کے وسائل پر قابض ہو جاتے  تھے اور اس علاقے کے دیگر لوگ ان بادشاہوں کی رعایا کہلاتے تھے۔ یہ سلسلہ تاریخ انسانی میں ایک لمبے عرصے تک چلتا  رہا ۔ اس طرح تشکیل پانے والی سلطنت کا نظام صرف طاقت کی بنیاد پر چلتا  تھا جو بادشاہ جتنا طاقتور ہوتا اس کی سلطنت اتنی ہی مستحکم اور پائیدار ہوتی۔  جوں جوں آبادی بڑھتی گئی تو ایک سلطنت کے اندر مختلف نسلوں کے لوگوں کی حکومتی معاملات میں حصہ داری کی خواہش کے نتیجے میں سلطنت میں نظام کی تبدیلیاں شروع ہو ئیں  جو مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے آج کل کے ملکوں اور نظام حکومت کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔ مختصراً بیان کرتا ہوں کہ آج کل کے دور میں ایک  تسلیم شدہ مخصوص سرحدوں کے اندر خطہ زمین کو ملک کہا جاتا ہے۔ اور اس میں بسنے والے  کسی ایک نسل  یا  مختلف نسلوں کے لوگوں کو  اُس ملک کی قوم کہا جاتا ہے۔جبکہ ملک اور اس میں بسنے  والی قوم مل کر ایک ریاست کہلاتے ہیں ۔یعنی  ریاست  ایک مخصوص خطہ زمین (ملک) اور اس میں بسنے  والے لوگو ں (قوم) پر مشتمل ہوتی ہے۔ یعنی ملک اور مالک کا مجموعہ ۔ جو نقطہ سمجھانے کی کوشش کر رہا  ہوں وہ یہ ہے کہ جس طرح ہر قطعہ زمین کا کوئی نہ کوئی مالک ہوتا ہے اسی طرح ہر ملک کی مالک اس کی قوم یا عوام ہوتی ہے ۔ اس عوام کی اپنی جسمانی اور ذہنی ضروریات کا تقاضہ ہوتا ہے کہ اس کوجان مال کی حفاظت ، خوراک اور دیگر سہولیات کی مسلسل فراہمی یقین کے ساتھ جاری رہے اس کیلئے قوم کو اپنی متعین کردہ سرحدوں کے اندر اپنے علاقے کی حفاظت بھی کرنا ہو تی ہے اور علاقے کے اندر موجود وسائل کو بھی محفوظ بنانا ہوتا ہے اس کے ساتھ   ساتھ اپنی صحت،تعلیم ، کاروبار، کاشتکاری اور اپنی آسائشوں وغیرہ کے لیےملک چلانے کیلیے نظام بھی بنانے پڑتے ہیں  اور اس میں معاملات کو طے شدہ اصولوں کے تحت نمٹانے کیلئے  عوام کے مابین کچھ تحریری معاہدے اور دستاویزات پر بھی اتفاق کرنا پڑتاہے۔ اس سوچ اور ضرورت کے تحت عوام مل کر یہ طے کرتے ہیں کہ ملک کا نظام چلانے کیلئے ، ملک کے تحفظ اور ترقی کیلئے مختلف لوگوں کو کیا کیا فرائض اور اختیارات سونپے جائیں گے تاکہ ملک میں بسنے والوں کو کوئی ابہام نہ رہے اور ہر کسی کو اپنے اور دوسروں کے حقوق و فرائض اور اختیارات کا علم ہو ۔ ان تمام امور کی ایک تفصیلی دستاویز تیار کرنے کیلئے ملک میں موجود تمام علاقوں اور تمام طبقات کی نمائندگی کرنے والے سرکردہ  لوگ سر جوڑ کر بیٹھے ہیں  کئی دنوں اور مہینوں کی مشاورت کے ساتھ   تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر تمام لوگوں کے حقوق و فرائض کا خیال رکھتے ہوئے ایک مشترکہ دستاویز تیار کرتے ہیں۔ جس کو ملک کا آیین کہا جاتا ہے۔ یہ متفقہ دستاویز دراصل ملک میں بسنے  والے لوگوں کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوتا ہے  اس لئے یہ ایک مقدس اور مقدم دستاویز ہوتی ہے ۔ اس میں یہ تحریر کیا ہوتا ہے کہ ملک کن علاقوں پر مشتمل ہے ملک کا علامتی سربراہ کتنی مدت کیلئے  اور کیسے چنا جائے گا۔ آئین میں ترامیم اور قانون سازی کا اختیار کسے ہوگا۔ ملک کا نظام چلانے والے لوگ (حکومت) کیسے منتخب  کئے جائیں گےاور کتنے عرصے کیلئے منتخب کئے جائیں گے۔ ملک کے مختلف امور کو چلانے کیلئے محکمے کیسے تشکیل پائیں گے اور ان کے سر براہان  اور دیگر اہلکار کیسے تعینات کئے جائیں گے۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کون اور کیسے کرے گا۔ اندرونی امن و امان کیسے برقرار رکھاجائے گا ،صحت، تعلیم ، کاروبار، زراعت، ذرائع آمد و رفت وغیرہ کے ادارے کیسے قائم کئے جائیں گے ۔ملکی معاملات چلانے کیلئے پیسے کیسےاکٹھے کئے جائیں گے اداروں اور انسانوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کو نمٹانے کیلئے عدالتی نظام کیسے کام کرے گا۔ عوام اور حکومت اور حکومتی اہلکاروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے اور اس کو عوام کے علم میں لانے کیلئے صحافت اور میڈیا کیسے کام کرے گا۔ ملک کے اندر وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلیوں اور  عوام کی ضروریات کے مطابق پالیسیاں اور قوانین کیسے بنائے جائیں گے یا تبدیل کیسے  کئے جائیں گے اور ان  قوانین پر عمل  درآمد کیسے کروایا جائے گا یا کیا جائے گا الغرض   ملک کے اندر نظام کو چلانے کیلئے اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کیلئے ہر شعبے کا احاطہ کرتے ہوئے آئین کو تشکیل دیا جاتا ہے اور اس میں وقتاً فوقتاً  ضرورت کے تحت تبدیلیاں بھی کی جاتی ہیں۔

پارلیمانی نظام حکومت  میں آئین میں ترامیم اور قانون سازی کیلئے قانون ساز اسمبلیاں  تشکیل دی جاتی ہیں  جن کے ممبران  کو عوام اپنے اپنے  متعین  کیے گیے حلقے سے منتحب کر کے اپنے نمائندے کے طور پر اسمبلیوں میں بھیجتی ہے ۔اس طرح وفاقی سطح پر قومی اسمبلی اور صوبائی سطح پر صوبائی اسمبلیاں وجود میں آتی ہیں۔ قومی اسمبلی کے  علاوہ تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی پر مشتمل ایک سینٹ تشکیل دیا جاتا ہےاور قومی اسمبلی (ایوان زیریں)  اور سینٹ (ایوان بالا) کو مجموعی طور پر پارلیمان کہا جاتا ہے۔ پارلیمان کی یہ ذمہ داری اور اختیار ہوتا  ہے کہ وہ عوام  اور ملک کے مفاد میں قوانین بنائے اور ضرورت کے مطابق موجود قوانین یا  آئین میں تبدیلیاں بھی کر سکے ۔ اس لئے پارلیمان کو مقننہ بھی کہا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کا یہ بھی اختیار ہے کہ وہ اکثریتی پارٹی  کےممبران ِقومی اسمبلی میں سے کسی ایک ممبر کو وزیر اعظم کیلئے نامزد کرے اور ممبران اکثریتی  ووٹ کے ذریعے وزیر اعظم منتخب کرتے ہیں ، جو قومی اسمبلی میں  قایٔدِ ایوان بھی کہلاتا ہے۔وزیراعظم  قومی اسمبلی اور سینٹ  کے ممبران میں سے کچھ ممبران کو چن کر وزیر بنا  لیتا ہے  ۔وزیروں کا یہ گروپ کابینہ کہلاتا ہےوزیراعظم اورکابینہ کومجموعی طورپر حکومت کہا جاتا ہے۔ ممبرانِ قومی اسمبلی کے اعتماد تک وزیر اعظم اپنے  عہدے پر رہ سکتا ہے اور اگرممبران کی اکثریت وزیر اعظم پر عدم اعتماد کردے تو وزیر اعظم کو اپنا عہدہ چھوڑنا ہوتا ہے اور ساتھ ہی اس کی کابینہ بھی تحلیل ہو جاتی ہے اور حکومت ختم ہو جاتی ہے۔وزیراعظم کسی بھی وزیر کو عہدے سے ہٹا سکتا ہے یا اس کا محکمہ تبدیل کر سکتا ہے ۔ وزیر اعظم سربراہ حکومت یعنی  ملک کا چیف ایگزیکٹیو ہوتا ہے ،  حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ہر وزیر کے پاس ایک یا ایک سے زیادہ محکموں کا قلمدان ہوتا ہے وزیر کے دائرہ اختیار میں متعلقہ محکمہ کا سربراہ سیکرٹری ہوتا ہے جو پبلک سرونٹ ہوتا ہے اور سیکریٹری ٹو دی گورنمنٹ کہلاتا ہے۔سیکریٹری کے ماتحت پورے محکمے کے ملا زمین   ہوتے ہیں جو حکومت کی ہدایات اور پالیسیوں پر عملدرآمد کرواتے ہیں اور حکومت کے فیصلوں کو  قوانین کے مطابق نافذ کرتے ہیں ۔ تاکہ پالیسیوں کے ثمرات اور فوائد عوام تک پہنچائے جاسکیں ۔ سیکرٹری اور اس کے ماتحت تمام اہلکار سول سرونٹ یا پبلک سرونٹ یعنی عوام کے ملازمین یا عوام کے نوکر کہلاتے ہیں جن  کا کام عوام کی خدمت کر کے عوام کو آسانیاں فراہم کرنا ہوتا ہے اور عوام کو پریشان کرنے والے عوامل کو روکنا ہوتا ہے ۔  پارلیمان کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل درآمد اور کابینہ کی منظور کردہ پالیسیوں کو نافذکرنا حکومت کی ذمہ داری اور اختیار ہوتا ہے ۔اس طرح حکومت کو عاملہ کہا جاتا ہے۔ ملک    میں بسنے والے لوگوں اور مختلف اداروں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کے تصفیے کیلیٔے نظام عدل تشکیل دیا جاتا ہے جسے عدلیہ  کہا جاتا ہے۔

  اس طرح ریاست تین ستونوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

مقننہ  یعنی پارلیمان قومی اسمبلی   اورسینٹ

عاملہ یا نافذه       یعنی حکومت جو بیوروکریسی کے ذریعے اپنی پالیسیوں کو نافذ کرتی ہے۔

عدلیہ     نظام عدل

آج کل صحافت  کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے جو کہ معاشرے اور ریاست کے باقی ستونوں پر نظر رکھتا ہے اور ان کی کارگردگی کو قوم کے سامنے پیش کرتا ہے تا کہ ان کا محاسبہ کیا جا سکے  ۔ اپنی اہمیت کی وجہ سے   اس شعبے نے ریاست کے چو تھےستون کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔

خواتین و حضرات اس آرٹیکل  کے پہلے حصے میں  سادہ الفاظ میں یہ سمجھنے کی کوشش کی گیٔی ہے کہ قوم ، ملک ، ریاست اور حکومت کیا ہوتے ہیں،  ان کے اجزاء کیا ہیں۔ اور ان کا آپس میں تعلق اور ربط کیا ہے ۔ ان کے اختیارات اور فرائض کیا ہیں ۔ آرٹیکل کے دوسرے حصے میں ہم سیاست پر بات کریں گے اور سیاست کے خدوخال اور اعراض و مقاصد کو سمجھنے کی کوشش کریں گے ۔     ۔۔      (جاری ہے)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *